Monday 16 January 2012

ڈاکٹرستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش اورادبی دیانتداری کا تقاضا

ڈاکٹر نذر خلیق
صدر شعبۂ اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج،اصغر مال،راولپنڈی

ڈاکٹرستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش اورادبی دیانتداری کا تقاضا

۲۵نومبر ۲۰۱۱ء کے روزنامہ آج پشاور میں ڈاکٹر امجد حسین کے مضمون کا پہلا جملہ پڑھ کر ہی حیران رہ گیا ہوں ۔
’’ گزشتہ کئی مہینوں سے روزنامہ ’’ آج‘‘کے ادبی صفحے ادب سرائے پر ڈاکٹرستیہ پال آنند کے بارے میں ایک بحث چل رہی ہے،‘‘
اگر یہ بے خبری کی انتہا نہیں تو بددیانتی کی انتہا ہے۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند امریکہ کے ایک کوی سمیلن میں غلام محمد قاصر کی ایک غزل کے دو شعر اپنے نام سے پڑھ رہے تھے۔ ۳۰؍ستمبر۲۰۱۱ء کے روزنامہ آج کے ادبی ایڈیشن میں ناصر علی سید صاحب کا ایک متوازن کالم اس موضوع پر شائع ہوا تھا ۔اس کے علاوہ مجھے تو اور کوئی مضمون اس حوالے سے دکھائی نہیں دیا جس میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے بارے میں کوئی بحث چلائی گئی ہو۔امجد حسین کو وہ کالم کئی مہینوں پر کیوں محیط دکھائی دے رہا ہے؟حیرانی کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی بے جا محبت میں اس نوعیت کی کئی غلط سلط باتیں لکھتے گئے ہیں۔
ایک اور مثال:’’ میں سمجھا تھا بات ختم ہو چکی ہے لیکن جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اس بات کو آگے بڑھا رہے ہیں‘‘۔
چونکہ ڈاکٹر امجدحسین کے سامنے روزنامہ آج میں چھپنے والا مضمون تھا اور اس کے بعد ’’نادیہ ٹائمز‘‘ دہلی میں شائع ہونے والا حیدر قریشی کا مضمون ان کے نوٹس میں لایا گیا (جسے انہوں نے شاید پوری طرح پڑھا نہیں)اس لیے وہ یہ گمان کر بیٹھے کہ حیدر قریشی بات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔جبکہ حیدر قریشی کے مضمون سے ہی واضح ہے کہ ناصر علی سید کے ۳۰ستمبر کے کالم کے بعد روزنامہ آج کے فورم پریہ بات ختم ہو چکی تھی۔کچھ لوگوں نے بعض انٹرنیٹ فورمز پر اس مسئلہ کو پیش کیا تو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز کی رائے دی۔ بات تب بڑھی جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ایک انٹرنیٹ فورم پر اپنی طرف سے انگریزی میں ایک وضاحت نامہ جاری کیا۔۱۵ نومبر ۲۰۱۱ء کو یہ وضاحت نامہ جاری ہوا ۔اس کے جواب میں حیدر قریشی کو اصل حقائق پیش کرنا پڑے جو روزنامہ نادیہ ٹائمز اور روزنامہ ہمارا مقصد دہلی میں ۱۸ نومبر ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں شامل ہوئے۔اس لئے یہ کہناادبی دیانتداری کے منافی اور جھوٹ ہے کہ بات کو حیدر قریشی نے بڑھایا،حقیقتاََ اس بات کو ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے بڑھایا اور اب ڈاکٹر امجد حسین جیسے ان کے دوست بغیر کسی دلیل کے دفاع کرکے اس بات کو مزیدبڑھا رہے ہیں۔حیدر قریشی کے جوابی مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند ۲۵ستمبر ۲۰۱۱ء کو حیدر قریشی کو ایک وضاحت بھیج چکے تھے،جسے حیدر قریشی نے پہلے کہیں بھی پیش نہیں کیا۔ان کا مقصد تماشا لگانا ہوتا تو تب ہی ان کی ای میل کو شائع کر دیتے۔گویا واقعی ناصر علی سید کے کالم کے بعد بات ختم ہوچکی تھی۔پر جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنا انگریزی وضاحت نامہ جاری کیا تو ا س میں کئی خلافِ واقعہ باتیں د رج تھیں۔چنانچہ پھر حیدر قریشی نے ان کی ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کی لکھی ہوئی ای میل بھی شائع کر دی جو ان کی ۱۵نومبر کی وضاحت کے بالکل برعکس تھی۔اپنے وضاحت نامہ میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے یہ خلافِ واقعہ باتیں لکھیں۔
۱۔ درگا مندر کے کوی سمیلن میں انہوں(ڈاکٹر آنند) نے غلام محمد قاصر کا نام لے کر ان کی غزل کے دو شعر سنائے تھے۔
۲۔غلام محمد قاصر کے علاوہ احمد فراز،محسن احسان،خاطر غزنوی اور ڈاکٹر ظہوراحمد اعوان کے اشعار بھی ان کے نام لے کر سنائے تھے۔(جبکہ ڈاکٹر ظہوراحمد اعوان نے کبھی شعر نہیں کہے)
۳۔کلام سناتے ہوئے میری جو ویڈیو پیش کی جا رہی ہے اس میں ٹمپرنگ کی گئی ہے۔
ان باتوں کے بر عکس ۲۵ستمبر کو حیدر قریشی کے نام بھیجی گئی اپنی ای میل میں ستیہ پال آنند نے یہ لکھا تھا۔
’’اس کوی سمیلن میں مجھ سے کہا گیاتھاکہ اپنی نظموں کے علاوہ اردو کے مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار سنائیں ۔ مجھے کچھ اشعار یاد تھے وہ میں نے سنا دئیے۔شعراء کے نام نہیں واضح کیے گئے۔کیونکہ یاد نہیں تھے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔‘‘
حیدر قریشی نے اپنے مضمون’’اردو غزل کا انتقام:ستیہ پال آنند صاحب کا انجام‘‘میں اس حوالے سے سارے حقائق کو کھول کر بیان کر دیا ہے،ویڈیو ٹیمپرنگ کے الزام کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔یہاں ان ساری باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر امجد حسین یہ سارے حقائق جاننے کے باوجود تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی بار بار کی غلط بیانیوں کو ہیرا پھیری کہنا چاہیے تھا ، حیدر قریشی نے اسے ’’معصومانہ لغزش‘‘لکھا ہے اس کے باوجود ڈاکٹر امجد حسین نے نہ صرف ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا بے جا دفاع کیا ہے بلکہ ٹھوس شواہد اور واضح حقائق کا منہ بھی چڑایا ہے۔ان کا طرزِ عمل ادبی دیانتداری کے منافی ہے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی ادبی خدمات کا مسئلہ یہاں زیربحث ہی نہیں ہے۔ان سے جو کچھ سرزد ہوا اسے بھی محض ایک’’ معصومانہ لغزش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔اس کے بعد اگر تماشا لگ رہا ہے تو ان کی اپنی بے جا دفاعی کاوشوں کی وجہ سے لگ رہا ہے ڈاکٹر امجد حسین جیسے احباب ان کا اس طرح دفاع کرتے رہے تو ان کا اسی طرح تماشا لگا رہے گا ۔
جہاں تک پشاور کی مٹی کی بات ہے،یہ اہلِ پشاور اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا آپس کا معاملہ ہے۔ایک زمانہ میں پشاور میں ڈھیلے سے استنجا کا تصور عقیدے کی حد تک اہم تھا۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند اسے خاکِ شفا کہتے ہیں تو راج کپور فیملی (پشاور کی مٹی)اور ہر چرن چاولہ(میانوالی کی مٹی) کی طرح ان کی پشاور کی مٹی سے محبت کا ثبوت ہے۔خدا انہیں پشاور کی خاکِ شفا سے مزید شفا عطا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ نادیہ ٹائمز۔دہلی ۳۰؍نومبر ۲۰۱۱ء

No comments:

Post a Comment