Monday 16 January 2012

ادبی دھینگا مشتی


ڈاکٹر امجد حسین.....امریکہ

ادبی دھینگا مشتی

گزشتہ کئی مہینوں سے روزنامہ ’’ آج،، کے ادبی صفحے ادب سرائے پر ڈاکٹرستیہ پال آنند کے بارے میں ایک بحث چل رہی ہے، جس میں آنند صاحب پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مرحوم غلام محمد قاصر کے چند شعر، واشنگٹن کی ایک نجی محفل میں، اپنے نام سے پڑھے میرے پوچھنے پر آنند صاحب نے وضاحت کی کہ انہوں نے حاضرین کو کچھ شعر اپنی یاد سے سنائے تھے، ہو سکتا ہے انہوں نے ان شعرا کا نام نہیں لیا جنکے شعر انہوں نے سنائے تھے۔ جس کسوٹی پر جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اور میرے بہت ہی مہربان دوست ناصر علی سید صاحب، آنند صاحب کو پرکھ رہے ہیں اگراس کسوٹی کا اطلاق دنیا بھر کے شعرا پر کیا جائے تو مجھے یقین ہے ان میں سے اکثر فیل ہو جائینگے، میں خود اپنی تقریروں میں اورنجی محفلوں میں موقع محل کے مطابق شعر پڑھتا ہوں، اگر خیال رہے تو شاعر کا حوالہ دے دیتا ہوں اور اگر شاعر کانام یاد نہ ہو تو ذکر نہیں کرتا، غلطی سے کسی کا شعر پڑھ دینے کے گناہ کامرتکب میں بھی ہوا ہوں اور کئی بار ہوا ہوں۔
ستیہ پال آنند اردو، انگریزی، پنجابی اور ہندی ادب کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر ہیں ان کی اردو شاعری کی درجن کے قریب کتابیں چھپ چکی ہیں اور اب اسی مہینے ان کی انگریزی شاعری کے تین مجموعے امریکہ میں شائع ہو رہے ہیں، اتنی قدامت کے شاعر کو کسی اور کا کلام اپنے نام سے منسوب کرنے کا کیا فائدہ۔
آنند صاحب پر یہ اعتراض بھی کیاگیا ہے کہ وہ پشاور سے نہیں ہیں اور پشاور کو اپنا شہر کہتے ہیں ان کا پس منظر یہ ہے کہ ان کی پیدائش مغربی پنجاب کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی، ان کے والد پنجاب سے نوشہرہ آکر آباد ہوگئے، آنند صاحب نے ہائی سکول کی تعلیم نوشہرہ میں حاصل کی، اسی مناسبت سے وہ پشاور کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتے ہیں ان کی بیگم مرحومہ پامیلا دیوی کا گھرانہ پشاور کے محلہ اندر شہر میں رہتا تھا، اس مناسبت سے بھی وہ پشاور کے ٹھہرے اسکے علاہ آنند صاحب کا نانکا بھی پشاور میں تھا اب یہ ضروری تو نہیں کہ صرف ان لوگوں کو پشاوری کہلانے کا حق حاصل ہو جن کی پیدائش فصیل والے شہر پشاور کے اندر ہوئی ہو، پشاور کے ساتھ آنند صاحب کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پچھلے سال جب میں پشاور آرہا تھا تو میں نے پوچھا کہ ان کیلئے پشاور سے کیا لے کرآؤں،
بڑی سنجیدگی سے کہا کہ میرے لئے پشاور کی ایک مٹھی خاک لے کر آنا، میں ان کے لئے پشاور کی مٹی کا تحفہ لے گیا، بہت خوش ہوئے اور اس پر انہوں نے پشاور سے اپنے قلبی تعلق پر ایک نظم لکھی، وہ نظم میں نے ان پر لکھے ہوئے ایک کالم میں نقل کی تھی، وہ پشاور کی مٹی کوخاک شفا کہتے ہیں، اب یہ زیادتی نہیں کہ غلام محمد قاصر صاحب کے شعروں کے علاوہ ان پر پشاوری نہ ہونے کا الزام بھی لگایاجارہا ہے۔
ادب سرائے میں آنند صاحب کے خلاف جو باتیں لکھی گئی تھیں، میں نے ان کا نوٹس تو لیا لیکن اس پر کچھ لکھا نہیں بلکہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار محترم ناصر علی سید سے بذریعہ ٹیلی فون کر دیا، جس کا انہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں ذکر کیا ہے، میں سمجھا تھا بات ختم ہو چکی ہے لیکن جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اس بات کو آگے بڑھا رہے ہیں انہوں نے ہندوستان میں دلی سے شائع ہونیوالے اردو روزنامہ ’’نادیہ ٹائمز،، میں اردو غزل کا انتقام اور ستیہ پال آنند صاحب کا انجام، کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں پچھلی باتوں کا اعادہ کرنے کے بعد انہوں نے تان اس بات پر توڑی کہ آنند صاحب کی غزل دشمنی کا انتقام اردو غزل نے، ان پر کیچڑ اچھال کرلیا ہے(کیچڑ اچھالنے کا محاورہ میں نے استعمال کیا ہے)۔
اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ غلام محمد قاصر کے شعر ایک طرف، دراصل آنند صاحب سے بغض رکھنے والے اصحاب ان کی غزل دشمنی سے شاکی ہیں میرے نزدیک یہ مور اوور(more over) قسم کی حرکت ہے کہ ایک بات پکڑنے کے بعد اس کی آڑ میں ادھر ادھر کے باقی الزام بھی ان کے سرتھوپ دیں چاہتا ہوں کہ آنند صاحب کی اس نام نہاد غزل دشمنی کا پس منظر بھی آپکے سامنے پیش کردوں۔
آنند صاحب کا موقف ہے کہ غزل نے اردو شاعر کو قافیہ، ردیف اور گنے چنے موضوعات کے شکنجوں میں مقید کرکے اردو شاعری میں نت نئے تجربات کرنے کا راستہ بند کر رکھا ہے غزل ایک خوبصورت صنف ہے اور اردو کے عظیم شعراء نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہمارے لئے غزل کا انمول توشہ چھوڑ گئے ہیں، لیکن ہمارے لئے ضروری نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ان شکنجوں میں قید رکھیں، شاعری میں اظہار خیال کئی صورتوں میں کیا جا سکتا ہے، دنیا کی باقی زبانوں کے شاعرانہ ادوب کئی صدیوں سے ان باقی اصناف کو سمورہے ہیں، اردو میں آزاد شاعری کی ابتداء4 1930ء4 کی دہائی میں ن م راشد اور کچھ دیر بعد علی گڑھ کے ڈاکٹر منیب الرحمن نے کی، اور اب آزاد شاعری میں کئی اصناف(Free Verse & Blank Verse) ایجاد ہو چکی ہیں اور جاپان سے امپورٹ شدہ شاعرانہ پیمانے ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی جا رہی ہے، ان اصناف کے اضافے سے اردو شاعری میں غزل کا مقام کم نہیں ہوا اپنی جگہ قا ئم و دائم ہے، بلکہ موجودہ دور کے شاعر اردو شاعری کی مختلف اصناف میں لکھتے ہیں زمانہ حال میں فیض اور فراز جیسے عظیم غزل گو شعراء4 نے بھی آزاد شاعری کی ہے اور شاعری کا حق ادا کیا ہے۔
میں یہ بات مانتا ہوں کہ ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت میں ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں، اس بارے میں وہ سب کچھ یا کچھ بھی نہیں(all or none) کے اصول پر پابند ہیں جو میری ناقص رائے میں مناسب نہیں ہے۔
آنند صاحب اب اسی سال کے پیٹے میں ہیں انہوں نے تمام عمر اردو ادب کی خدمت کی ہے اور کررہے ہیں ہمیں چاہئے کہ اگر ان سے نادانستہ غلطی ہو بھی گئی ہو تو اسے درگزر کر دینا چاہئے نہ کہ صرف ایک بات کو پکڑ کران کی تمام خدمات کو رد کر دیا جائے، لہٰذا مجھے روزنامہ ’’آج،،کے چند مضامین پڑھ کر دکھ ہوا ہے، یہ میری درخواست ہے کہ میرے محترم دوست اور ادب سرائے کے مہتمم ناصر علی سید صاحب اپنی دیدہ زیب اور خوبصورت سرائے میں اس قسم کی ادبی دھینگا مشتی کو بند کر دیں گے۔ 
(مطبوعہ روزنامہ آج پشاور ۲۵؍نومبر ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام محمد قاصر مرحوم کے صاحبزادے
 عماد قاصر کا خط ناصر علی سید کے نام
ڈاکٹر امجد حسین کے کالم کے حوالے سے
محترم ناصر انکل
السلام علیکم
روزنامہ آج پشاور میں جناب ڈاکٹر امجد حسین کا 25 نومبر کا کالم "ادبی دھینگا مشتی" نظر سے گزرا۔ اس حوالے سے اپنی کچھ " اوبزرویشنز " آپ سے شیئر کر رہا ہوں
پہلی بات تو یہ کہ "کسی کے شعر پڑھنا" اور "کسی کے شعر اپنے نام سے پڑھنا" دو مختلف باتیں ہیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ جناب ڈاکٹر امجد حسین خود اپنے اسی کالم میں اعتراف کر رہے ہیں کہ "ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت میں ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں" لہذا کیا یہ "کْھلا تضاد" نہیں کہ ایک طرف تو آنند صاحب غزل مخالفت کریں اور دوسری طرف " واہ واہ" سننے کے لیے غزل ہی کے اشعار کا انتخاب فرمائیں؟
ڈاکٹر امجد حسین کے مطابق یہ ایک "نادانستہ غلطی" تھی ، اگر واقعی ایسا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، حیدر قریشی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اگر آنند صاحب اپنی اس لغزش کا کھلے دل سے اعتراف کر لیتے تو بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ لیکن کیا "نادانستہ غلطی" کرنے والے بار بار بیان بدلتے ہیں ؟؟ یعنی آنند صاحب کے ایک بیان کے مطابق نہ صرف قاصر صاحب بلکہ فراز صاحب، محسن صاحب، خاطر صاحب حتی کہ ظہور اعوان صاحب کا بھی نام لے کر ان کے اشعار پڑھے گئے اور ایک دوسرے بیان میں فرمایا گیا کہ نام یاد نہیں تھے اس لیے واضح نہیں کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر امجد حسین جہاں آنند صاحب کی عمر اور ادب کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں تو ان متضاد بیانات کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں کیا بار بار بیان بدلنا آنند صاحب کو زیب دیتا ہے؟ حیدر قریشی صاحب کے مضمون میں بھی زور غلطی سے زیادہ بار بار بیان بدلنے اور اس تضاد پر ہے کہ ایک غزل مخالف اپنے فائدے اور داد و تحسین کے لیے اسی غزل کا سہارا کیوں لیتا ہے ؟
ڈاکٹر امجد حسین ادبی دھینگا مشتی کا باعث بننے والوں کو تو کچھ نہیں کہتے لیکن آپ کو، جو صرف اپنی ادبی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یہ باتیں لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، روک رہے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے اور جو سامنے ہے اسی کو سچ مان لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں پڑھ کر والدِ گرامی مرحوم غلام محمد قاصر کا ہی ایک شعر یاد آگیا۔
کیا کروں میں یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جھوٹی ہے
والسلام
عماد قاصر
Date: Tue, 29 Nov 2011 04:16:57 -0800

No comments:

Post a Comment