Monday 16 January 2012

غلام محمد قاصر کے اشعار پڑھنے کا قضیہ

ناصر علی سید....پشاور
بات کرکے دیکھتے ہیں

غلام محمد قاصر کے اشعار پڑھنے کا قضیہ

یادش بخیر،کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی اچھا شعر کہنے والے شاعرتواترسے مشاعروں میں ایک شعرپڑھا کرتے تھے ۔اور بہت سی داد سمیٹنے کے بعد وہ اپنی غزلیں پیش کرتے تھے ۔جب ان سے کہا جاتا کہ۔۔بھائی یہ شعر تو مبارک شاہ کا ہے(نہ جانے کون دعاؤں میں یاد۔۔۔)تو کہتے جی ہاں مگر مجھے اچھا لگتا ہے۔ کہا گیا کہ اچھا لگتا ہے تو شاعر کا نام بتا دیا کرو ۔۔جواب دیتے ضروری نہیں سمجھتا ہوں۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کوہاٹ کے یہ شاعر خود بے حد عمدہ شعر کہتے ہیں،بہت پرگو ہیں اور کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں ۔اب اگر کوئی متشاعر یہ حرکت کرے تو اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے مگر موصوف اتنے اچھے اور اتنے بہت سے شعر کہہ چکے ہیں کہ ان کا معیار کلام اور مقدار کلام بہت سوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے ۔مگر بایں ہمہ وہ مشاعرہ میں(شاید)اعتماد حاصل کرنے اور اپنے طرفدار پیدا کرنے کے لئے پہلے مبارک شاہ کا شعر پڑھنے کی عادت بد میں گرفتار ہیں۔ایک اچھے شاعر کی یہ بری حرکت(یا واردات) کی یاد مجھے یوں آئی کہ مجھے ایک ہی دن دو احباب کی طرف سے ایسی ہی ایک واردات کی خبر ملی۔سب سے پہلے تو عزیز دوست حیدر قریشی نے جرمنی سے ای میل کے ذریعے اطلاع دی جسے میں نے فور ا عماد قاصر کو فارورڈ کر دیا۔اور پھر وی آنا(آسٹریا) سے خوبصورت لہجے کے شاعر پروفیسر آفتاب حسین نے فون کر کے بتایا۔مجھے یہاں ایک بار پھر یہ خوشی احباب سے شیئر کرتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے کہ’’ادب سرائے ‘‘بیرون ملک رہنے والے پاکستانی شعراء وادباء میں بے حد مقبول ہے۔اور ہر بار ٹیلی فون اور ای میلز کے ذریعے وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔حیدر قریشی نے لکھا’’واشنگٹن امریکہ میں ہونے والے ایک کوی سیملن(مشاعرہ) میں افسانہ نگار اور نظم نگار ستیہ پال آنند نے شرکت کی اور اپنا کلام پیش کیا۔یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔

بالکل شروع میں ستیہ پال آنند نے غزل کے دو شعر سنائے۔
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
 وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام 
 مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اور ظاہر ہے یہ دونوں اشعار غلام محمد قاصر مرحوم کی مشہور اور مقبول غزل کے ہیں‘‘ کم و بیش یہی بات پروفیسر آفتاب نے بھی فون پر شیئر کی۔میں نے عماد قاصر کو حیدر قریشی کی ای میل اور لنک بھیج دیا۔جس کے جواب میں عماد قاصر نے لکھا:
’’ناصر انکل،ستیہ پال آنند جی کو والد صاحب کے اشعار پڑھتا دیکھ کر حیرت ہوئی،والد گرامی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہیں اور خط و کتابت بھی رہی۔یہ ان کا نام لے کرپڑھتے تو خوشی ہوتی کہ انہوں نے اپنے دوست کو یاد رکھا ہوا ہے۔یہ اشعار ۱۹۹۷ میں شائع ہونے والے ان کے مجموعے کے فلیپ پر موجود ہیں جب کہ اگست ۱۹۹۶ کے پی ٹی وی کے مشاعرے کا لنک میں بھیج رہا ہوں۔جس میں ان کی اپنی آواز میں یہ غزل سنی جا سکتی ہے۔‘‘
خیر اس کے لئے تو عماد جی کسی گواہ کی ضرورت نہیں کہ یہ شعر خود ہی غلام محمد قاصر کا نام لیتے محسوس ہو رہے ہیں ۔اب اس ستم ظریفی کو دیکھئے اس کوی سیمیلن میں غزل کے شعر وہ سنا رہا ہے جس کی وجہ شہرت ہی غزل دشمنی ہے۔دیکھئے حیدر قریشی کو اس مشاعرے کی مکمل وڈیو کب ہاتھ لگتی ہے۔یہ خوش گمانی تو ہے کہ کیا خبر انہوں نے قاصر مرحوم کا نام لیا ہو اور اس لنک میں نہ ہو۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اشعار سناتے ہوئے ستیہ پال آنند کے چہرے کے جو تاثرات ہیں۔جو پھیکی پھیکی سی ہنسی ہے۔شعر ایک جھجک کے ساتھ پڑھنے کا انداز ہے اور پھر پہلا مصرعہ غلط پڑھنا ہے۔(بغیر اس کے تو آرام بھی نہیں آتا)اورداد کے جواب میں سست سا رد عمل ہے۔یہ سب تو کچھ اور کہانی سناتا ہے۔۔پھر بھی حیدر قریشی کی تحقیق کا انتظار کرتے ہیں اور اس امید کے ساتھ کہ عمران شاہد بھنڈر کو بیچ ادبی چوراہا کے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی تکلیف میں مبتلا کر نے کے بعد وہ اس محاذ پر بھی کامیاب و کامران ہوں گے۔
(مطبوعہ ادبی ایڈیشن ادب سرائے روزنامہ آج پشاور۔۳۰؍ستمبر۲۰۱۱ء)

No comments:

Post a Comment